وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا
زندگی کو زندگی بھر کا سہارا مل گیا
ہر دل درد آشنا میں دل ہمارا مل گیا
پارہ پارہ ہو چکا تھا پارا پارا مل گیا
ہم کہ میخانے کے وارث تھے ہیں اب تک تشنہ لب
چند کم ظرفوں کو صہبا کا اجارا مل گیا
جس نے خالی جام پٹکا اس مجاہد کو سلام
میکدے میں آج پیاسوں کو اشارا مل گیا
نا خدا یہ دونوں ساحل ایک ہی دریا کے ہیں
یہ کنارہ مل گیا یا وہ کنارا مل گیا
ہم نے اپنے قافلے میں اس کو شامل کر لیا
جو تھکا ہارا ملا جو غم کا مارا مل گیا
پھر کوئی عیسیٰ فراز دار کی زینت بنا
پھر کسی تاریک شب کو اک ستارا مل گیا
غزل
وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا
سالک لکھنوی