وفور حسن کی لذت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کچھ آئنے ہیں جو حیرت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کسی جتن کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہیں
ہم ایسے لوگ محبت سے ٹوٹ جاتے ہیں
زمانہ ان کو بہت جلد مار دیتا ہے
جو لوگ اپنی روایت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کئی زمانے کی سختی بھی جھیل لیتے ہیں
کئی وجود حفاظت سے ٹوٹ جاتے ہیں
ہم ایسے لوگوں کو عشوہ گری نہیں آتی
ہم اک ذرا سی شرارت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کبیرؔ جب سبھی دیواریں خستہ ہو جائیں
تو پھر مکان مرمت سے ٹوٹ جاتے ہیں

غزل
وفور حسن کی لذت سے ٹوٹ جاتے ہیں
انعام کبیر