وہ یار ہم سے خفا ہے تو ہو ہوا سو ہوا
پھر اس کا قصہ ہی کیا جانے دو ہوا سو ہوا
اگر رقیب شرارت سے باز نہیں آتا
بلا سے اپنی کنویں میں پڑو ہوا سو ہوا
ہر اک بات میں تم کیوں الجھتے ہو یارو
دیکھو یہ مفت گدھے مت چڑھو ہوا سو ہوا
یہ سارا قضیہ تو ہم سے ہے اس سے تم کو کیا
تم اپنے ایک طرف ہو رو ہوا سو ہوا
ہم اپنا آپ ہی کر لیں گے انفعال اس سے
ہمارے بیچ کوئی مت پڑو ہوا سو ہوا
یہ سب لڑانے کی باتیں ہیں تم جو کرتے ہو
ذرا تو خیر کا کلمہ کہو ہوا سو ہوا
ہمیں تو یار سوا اپنے تئیں کرے کام
برا کسی کو لگے تو لگو ہوا سو ہوا
رنگا ہے اب تو زمانے نے رنگ
یہ لال زرد دکھائی کرو ہوا سو ہوا
گراں ہوں سے تری نینؔ پیش نہیں جاتی
تو پھیر بے ہودہ کیوں بکتے ہو ہوا سو ہوا
غزل
وہ یار ہم سے خفا ہے تو ہو ہوا سو ہوا
نین سکھ