وہ تو نہیں ملا ہے سانسوں جئے تو کیا ہے
دل اب بھی پیاس پر ہے غم پی لیے تو کیا ہے
ساری خوشی ہماری آنکھوں سے چھن رہی ہے
کچھ دیر تم نے گیسو لہرا دیئے تو کیا ہے
بے تابیاں بھی کتنی منہ زور ہو گئیں ہیں
طوفان جاتے جاتے کچھ مر لیے تو کیا ہے
میں بھی وہاں پرانے زخموں کو دھو رہا تھا
تو نے بھی آج دن بھر دکھڑے سئے تو کیا ہے
ہنس ہنس کے کہہ رہا ہے یہ رات کا دریچہ
اب گونج ابھر رہی ہے لب سی لیے تو کیا ہے
اس مے کدے میں اب بھی تقسیم ہے پرانی
چھلکا دیئے تو کیا ہے الٹا دیئے تو کیا ہے

غزل
وہ تو نہیں ملا ہے سانسوں جئے تو کیا ہے
رؤف رضا