وہ توانائی کہاں جو کل تلک اعضا میں تھی
قحط سالی کے دنوں میں تیری یاد آتی رہی
ایک بے معنی سی ساعت ایک لا یعنی گھڑی
جسم کے اجڑے کھنڈر میں ایک عرصہ بن گئی
ایک جھٹکا سا لگا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا
اس کی آنکھوں سے نشے کی تیغ مجھ پر گر پڑی
جس پہ میرے خون کی واضح شہادت نقش تھی
میرے قاتل کی وہ ثابت آستیں بھی پھٹ گئی
چار دیواری کے گہرے غار میں سویا تھا میں
اور اک آواز سمتوں میں بکھر کر رہ گئی
غزل
وہ توانائی کہاں جو کل تلک اعضا میں تھی
عتیق اللہ