وہ سکون جسم و جاں گرداب جاں ہونے کو ہے
پانیوں کا پھول پانی میں رواں ہونے کو ہے
ماہی بے آب ہیں آنکھوں کی بے کل پتلیاں
ان نگاہوں سے کوئی منظر نہاں ہونے کو ہے
گم ہوا جاتا ہے کوئی منزلوں کی گرد میں
زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو ہے
میں فصیل جسم کے باہر کھڑا ہوں دم بخود
معرکہ سا خواہشوں کے درمیاں ہونے کو ہے
جاگتا رہتا ہوں اس کی وسعتوں کے خواب میں
چشم حیراں سے بیاں اک داستاں ہونے کو ہے
شام ہوتے ہی عطاؔ کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور نا گہاں ہونے کو ہے
غزل
وہ سکون جسم و جاں گرداب جاں ہونے کو ہے
عطاء الحق قاسمی