وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
تو ماہتاب فلک کو حجاب آئے گا
خبر نہ تھی کہ مٹیں گے جوان ہوتے ہی
اجل کا بھیس بدل کر شباب آئے گا
پڑے گا عکس جو ساقی کی چشم میگوں کا
نظر شراب میں جام شراب آئے گا
ہزار حیف کہ سر نامہ بر کا آیا ہے
سمجھ رہے تھے کہ خط کا جواب آئے گا
کلیم ہاں دل بیتاب کو سنبھالے ہوئے
سنا ہے طور پہ وہ بے نقاب آئے گا
جو آرزو ہے ہماری وہ کہہ تو دیں لیکن
خیال یہ ہے کہ تم کو حجاب آئے گا
یہ شوخیاں تری اس کم سنی میں اے ظالم
قیامت آئے گی جس دن شباب آئے گا
کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں
کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا
چلا ہے ہجرؔ سیہ کار بزم جاناں کو
ذلیل ہو کے یہ خانہ خراب آئے گا
غزل
وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
ہجرؔ ناظم علی خان