وہ شخص پھر کہانی کا عنوان بن گیا
میں درد لکھ رہی تھی وہ دیوان بن گیا
گردش میں چاروں سمت رہے اس کے لفظ لفظ
کچھ یوں ہوا کے آج وہ مہمان بن گیا
خوش تھی میں اس کو بخش کے کردار پھر نیا
وہ میری دل لگی کا بھی سامان بن گیا
محفل عروج پر تھی کہ نظریں الجھ پڑیں
سب جان بوجھ کے بھی وہ انجان بن گیا
جب اس کا عشق خون کی دھاروں میں حل ہوا
میرے لیے تو لولو و مرجان بن گیا
اتنے تغیرات کے اللہ کی پناہ
ہر کرب میرے عشق کا تاوان بن گیا
لذت تو آنکھ نے بھی اٹھائی تھی ساری رات
اک خواب میری روح کا سوہان بن گیا
کچھ اور رمز مجھ پہ کیے جائیں آشکار
اس کی طرف سے یہ نیا فرمان بن گیا
اسریٰؔ قدم سنبھال کے رکھنا زمین پر
شیطان کہہ رہا ہے کہ رحمان بن گیا
غزل
وہ شخص پھر کہانی کا عنوان بن گیا
اسریٰ رضوی