وہ سوالات مجھ پر اچھالے گئے
چاہ کر بھی نہ جو مجھ سے ٹالے گئے
تھا یہ روشن جہاں روشنی ان سے تھی
وہ گئے ساتھ ان کے اجالے گئے
خط تو یوں سیکڑوں میں نے ان کو لکھے
جو بھی دل سے لکھے وہ سنبھالے گئے
جب زباں بند تھی روٹی ملتی رہی
کھول دی پھر تو منہ کے نوالے گئے
خار راہوں میں غیروں نے ڈالے مگر
دوستوں کے اشاروں پہ ڈالے گئے
جگ نے تعریف جتنی بھی میری سنی
دوش اتنے ہی مجھ میں نکالے گئے
اشک پی کر جو غیروں کے ہنستے رہے
لوگ کلکلؔ کہاں وہ نرالے گئے

غزل
وہ سوالات مجھ پر اچھالے گئے
راجندر کلکل