وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے
مرے خیالوں میں رنگ بھر دے مرے لہو کو شراب کر دے
حقیقتیں آشکار کر دے صداقتیں بے حجاب کر دے
ہر ایک ذرہ یہ کہہ رہا ہے کہ آ مجھے آفتاب کر دے
یہ خواب کیا ہے یہ زشت کیا ہے جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے
بڑا مزا ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے
کہو تو راز حیات کہہ دوں حقیقت کائنات کہہ دوں
وہ بات کہہ دوں کہ پتھروں کے جگر کو بھی آب آب کر دے
خلاف تقدیر کر رہا ہوں پھر ایک تقصیر کر رہا ہوں
پھر ایک تدبیر کر رہا ہوں خدا اگر کامیاب کر دے
ترے کرم کے معاملے کو ترے کرم ہی پہ چھوڑتا ہوں
مری خطائیں شمار کر لے مری سزا کا حساب کر دے
حفیظؔ سب سے بڑی خرابی ہے عشق میں لطف کامیابی
کسی کی دنیا تباہ کر دے کسی کی عقبیٰ خراب کر دے
غزل
وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے
حفیظ جالندھری