وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے
ولے اپنا جو دل زار ہے وہ ہزار جان سے نثار ہے
ملے جب سے کوچے میں اس کے جا یہ سرور عیش ہے برملا
لب دل ہے اور وہ نقش پا بر جاں ہے اور در یار ہے
وہ نگہ جو اس کی ہے فتنہ گر اسے مشق صید ہے پیشتر
ہے جو دل کا طائر تیز پر اسی باز کا یہ شکار ہے
وہ مژہ لگا کے جو ایک سنان گئی پھر تو کر نہ دل اب فغاں
کئی ایسے ہوویں گے امتحاں یہ ابھی تو پہلا ہی وار ہے
جو بہار گل پہ رہی ہے تل ہمیں کیا جو حسن کی پی ہے مل
جنہیں چاہئے ہے وہ رشک گل انہیں گل سے کیا سروکار ہے
جو بتوں کو دیویں دل اور دیں رکھیں اس کو یہ بہ الم قریں
بھلا کہئے کیا اسے ہم نشیں یہ عجب کچھ ان کا شعار ہے
کئی دن ہوے ہیں نظیرؔ اب کہ خفا ہے ہم سے وہ غنچہ لب
اسے کیا ولے ہمیں روز و شب نہ تو صبر ہے نہ قرار ہے
غزل
وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے
نظیر اکبرآبادی