EN हिंदी
وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا | شیح شیری
wo sab ke dil mein basa tha habib aisa tha

غزل

وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا

جمیل قریشی

;

وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا
تمام شہر ہی میرا رقیب ایسا تھا

لہو لہو تھا اجالا سحر کے ماتھے پر
افق سے جھانکتا سورج صلیب ایسا تھا

متاع درد و الم بھی تو اس کے پاس نہ تھی
مجھے وہ کیا عطا کرتا غریب ایسا تھا

بنا بنا کے میں باتیں ہزار کرتا مگر
وہ مجھ سے جیت ہی جاتا خطیب ایسا تھا

مرا خلوص وہ ٹھکرا گیا حقارت سے
میں ہاتھ ملتا رہا بد نصیب ایسا تھا

تمام عمر جلاتا رہا وجود مرا
وہ ایک برف کا پیکر عجیب ایسا تھا