وہ روح کے گنبد میں صدا بن کے ملے گا
اک دن وہ مجھے میرا خدا بن کے ملے گا
بھٹکوں گا میں اس شہر کی گلیوں میں اکیلا
وہ مجھ کو مرے دل کا خلا بن کے ملے گا
وہ دور بھی آئے گا کہ ہر لمحۂ ہستی
مجھ سے ترے ملنے کی دعا بن کے ملے گا
کس زعم سے بچھڑا ہے مگر دیکھنا یہ بھی
تو خود سے خود اپنی ہی سزا بن کے ملے گا
اشعار میں دھڑکیں گے ملاقات کے لمحے
تو سب سے مرے فن کی بقا بن کے ملے گا
غزل
وہ روح کے گنبد میں صدا بن کے ملے گا
آزاد گلاٹی