EN हिंदी
وہ رقص کرنے لگیں ہوائیں وہ بدلیوں کا پیام آیا | شیح شیری
wo raqs karne lagin hawaen wo badliyon ka payam aaya

غزل

وہ رقص کرنے لگیں ہوائیں وہ بدلیوں کا پیام آیا

شیون بجنوری

;

وہ رقص کرنے لگیں ہوائیں وہ بدلیوں کا پیام آیا
یہ کس نے بکھرائیں رخ پہ زلفیں یہ کون بالائے بام آیا

مجھے خوشی ہے کہ آج میرا جنوں بھی یوں میرے کام آیا
سمجھ کے دیوانۂ محبت تمہارے ہونٹوں پہ نام آیا

مجھے صراحی سے کیا غرض ہے میرا نشہ اصل میں الگ ہے
ادھر تمہاری نگاہ اٹھی ادھر سرور دوام آیا

یہ حسن فانی ہے میری جاں یہ جوانیوں پہ غرور کیسا
جہاں چڑھا مہر نیم روزی اسی جگہ وقت شام آیا

چہکتی یہ بلبلیں یہ گلچیں چمن پہ حق ہے سبھی کا لیکن
کسی کے حصے میں پھول آئے کسی کے حصے میں دام آیا

دیا مجھے موت نے سنبھالا لحد میں بھی ہو گیا اجالا
یہ قبر پر کس نے گل چڑھائے یہ کون ماہ تمام آیا

نہ تو فعولن نہ فاعلاتن نہ بحر کوئی نہ کوئی تختی
یہ ہے عنایت کسی کی شیونؔ تجھے شعور کلام آیا