وہ رنگت تو نے اے گل رو نکالی
نچھاور کو گلوں نے بو نکالی
مزاج بوئے سنبل کر کے موقوف
صبا نے نکہت گیسو نکالی
نہ تھی جانے کی اس تک راہ دل کی
چھری سے چیر کے پہلو نکالی
نکاسی جب نہ دیکھی یاس دل کی
بہا کے آٹھ آٹھ آنسو نکالی
ہماری روح اک رشک چمن نے
سنگھا کے پھول کی خوشبو نکالی
مرے صیاد نے بلبل کی میت
قفس سے توڑ کے بازو نکالی
کیا اس سے جو خوش چشمی کا دعویٰ
تری جائے گی آنکھ آہو نکالی
سلیمانی دکھا دی شان تم نے
پری رو مانگ وہ خوش رو نکالی
نکالا حسن کا ارمان تو نے
مری حسرت نہ اے دل جو نکالی
چمن میں بھینی بھینی بو نے ان کی
نہ بسنے دی گئی شبو نکالی
دہان زخم سے تلوار چومی
بہ شکل بوسۂ ابرو نکالی
قیامت کا شباب اس نے نکالا
شرفؔ چنگیز خانی خو نکالی
غزل
وہ رنگت تو نے اے گل رو نکالی
آغا حجو شرف