EN हिंदी
وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی | شیح شیری
wo qaza ke ranj mein jaan den ki namaz jin ki qaza hui

غزل

وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی

مضطر خیرآبادی

;

وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی
ترے مست بادۂ شوق نے نہ کبھی پڑھی نہ ادا ہوئی

ترے دور دورۂ عشق میں مری ایک رنگ سے کٹ گئی
نہ ستم ہوا نہ کرم ہوا نہ جفا ہوئی نہ وفا ہوئی

مجھے غیر عجز و نیاز نے ترے در پہ جا کے جھکا دیا
نہ تو کوئی عہد لکھا گیا نہ تو کوئی رسم ادا ہوئی

مرا دل بھی تھا مری جاں بھی تھی نہ وہی رہا نہ یہی رہی
مجھے کیا خبر کہ وہ کیا ہوا مجھے کیا خبر کہ یہ کیا ہوئی

مری عمر مضطرؔ خستہ دل کٹی رنج و درد و فراق میں
نہ کسی سے میری دوا ہوئی نہ دوا سے مجھ کو شفا ہوئی