وہ پھیلے صحراؤں کی جہاں بانیاں کہاں ہیں
یہ سب تو گھر جیسا ہے وہ ویرانیاں کہاں ہیں
وہی امیدیں شکست دل کی وہی کہانی
وہ جاں بکف دوستوں کی قربانیاں کہاں ہیں
سلگ رہے ہیں زمیں زماں پھر بھی پوچھتے ہو
شرر فروشوں کی قہر سامانیاں کہاں ہیں
قدم قدم پر فریب پگ پگ نکیلے کانٹے
چمن تک آنے کی اب وہ آسانیاں کہاں ہیں
رضاؔ یہ محفل تو سرد ہی ہوتی جا رہی ہے
کہاں ہیں شمعیں وہ شعلہ سامانیاں کہاں ہیں
غزل
وہ پھیلے صحراؤں کی جہاں بانیاں کہاں ہیں
کالی داس گپتا رضا