EN हिंदी
وہ پتھرائی سی آنکھوں کو بھی کاجل بھیج دیتا ہے | شیح شیری
wo pathrai si aankhon ko bhi kajal bhej deta hai

غزل

وہ پتھرائی سی آنکھوں کو بھی کاجل بھیج دیتا ہے

ندیم فرخ

;

وہ پتھرائی سی آنکھوں کو بھی کاجل بھیج دیتا ہے
سلگتی دوپہر میں جیسے بادل بھیج دیتا ہے

میں اپنے سب مسائل بس اسی پر چھوڑ دیتا ہوں
مرے الجھے مسائل کا وہی حل بھیج دیتا ہے

جہاں والے اسے جب یاد کرنا بھول جاتے ہیں
زمینوں کی تہوں میں کوئی ہلچل بھیج دیتا ہے

جہاں اہل خرد تیور بدل کر بات کرتے ہیں
وہ عبرت کے لیے دو چار پاگل بھیج دیتا ہے

ہمارے آج کی جب کوششیں ناکام ہوتی ہیں
ہمیں وہ ایک اور امید کا کل بھیج دیتا ہے