EN हिंदी
وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب نا تمام تھا کیا | شیح شیری
wo nind adhuri thi kya KHwab-e-na-tamam tha kya

غزل

وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب نا تمام تھا کیا

صابر ظفر

;

وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب نا تمام تھا کیا
میں جس کو سوچ رہا تھا خیال خام تھا کیا

ادھر سے ہی کوئی گزرا جدھر سے گزرا تو
تری مثال کوئی اور خوش خرام تھا کیا

ملوں تو کیسے ملوں بے طلب کسی سے میں
جسے ملوں وہ کہے مجھ سے کوئی کام تھا کیا

اسی کے ساتھ رہا جس نے تجھ سے نفرت کی
تری نظر میں ظفرؔ اس کا کچھ مقام تھا کیا