وہ نماز عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے
کہ قعود سے جو گزرے تو قیام تک نہ پہنچے
وہ حیات کیا کہ جس میں نہ خوشی کے ساتھ غم ہو
وہ سحر بھی کیا سحر ہے کہ جو شام تک نہ پہنچے
ترے مے کدے کا ساقی یہ چلن بھی کیا چلن ہے
کہ جو ہاتھ تشنہ کاموں کے بھی جام تک نہ پہنچے
مری نا مرادیوں کی یہی انتہا ہے شاید
تری بارگاہ عالی میں سلام تک نہ پہنچے
اسے اپنی بد نصیبی نہ کہیں تو پھر کہیں کیا
کہ ہزار کوششوں پر رہ عام تک نہ پہنچے
یہ مخاصمت کے جذبے یہ محاذ حاسدوں کے
مگر عمر بھر وہ ذوقیؔ کے مقام تک نہ پہنچے
غزل
وہ نماز عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے
محمد ایوب ذوقی