وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے
یہ اگر رسموں رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے
سچ کو میں نے سچ کہا جب کہہ دیا تو کہہ دیا
اب زمانے کی نظر میں یہ حماقت ہے تو ہے
کب کہا میں نے کہ وہ مل جائے مجھ کو میں اسے
غیر نا ہو جائے وہ بس اتنی حسرت ہے تو ہے
جل گیا پروانہ گر تو کیا خطا ہے شمع کی
رات بھر جلنا جلانا اس کی قسمت ہے تو ہے
دوست بن کر دشمنوں سا وہ ستاتا ہے مجھے
پھر بھی اس ظالم پہ مرنا اپنی فطرت ہے تو ہے
دور تھے اور دور ہیں ہر دم زمین و آسماں
دوریوں کے بعد بھی دونوں میں قربت ہے تو ہے
غزل
وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے
دپتی مشرا