EN हिंदी
وہ نازک سا تبسم رہ گیا وہم حسیں بن کر | شیح شیری
wo nazuk sa tabassum rah gaya wahm-e-hasin ban kar

غزل

وہ نازک سا تبسم رہ گیا وہم حسیں بن کر

غلام ربانی تاباںؔ

;

وہ نازک سا تبسم رہ گیا وہم حسیں بن کر
نمایاں ہو گیا ذوق ستم چین جبیں بن کر

بہت اترا رہی ہے رات زلف عنبریں بن کر
بہت مغرور ہے نور سحر رنگ جبیں بن کر

مری جامہ دری نے راز یہ کھولا زمانے پر
خرد دھوکے دیا کرتی ہے جیب و آستیں بن کر

کرم میں بھی مگر اک غمزۂ خوں ریز شامل تھا
نگاہوں کی طرف اٹھی تو دل کی نکتہ چیں بن کر

مری دیوانگی تھی اک شرار آرزو دل میں
بڑھی تو دار پر روشن ہوئی شمع یقیں بن کر

پیام آتے رہے اکثر کسی محو تغافل کے
ادائے برملا بن کر نگاہ شرمگیں بن کر

وہ اک سجدہ نہ ہو پایا جو برباد حرم تاباںؔ
جبین شوق پر روشن ہے پندار جبیں بن کر