EN हिंदी
وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہوگا | شیح شیری
wo nam zahr ka rakh den dawa to kya hoga

غزل

وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہوگا

محمد ایوب ذوقی

;

وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہوگا
کہیں جو خون کو رنگ حنا تو کیا ہوگا

چمن کی سمت چلا تو ہے کاروان بہار
جو راہزن ہی ہوئے رہنما تو کیا ہوگا

حریف سیل حوادث تو ہے سفینۂ قوم
جو نذر موج ہوا نا خدا تو کیا ہوگا

ترس رہا ہے زمانہ سکون دل کے لئے
سکون دل نہ میسر ہوا تو کیا ہوگا

چمن کے عشق میں اہل وفا یہ بھول گئے
بدل گئی جو چمن کی فضا تو کیا ہوگا

گزر رہی ہیں نگاہیں حد تجسس سے
ملا نہ کوئی جو درد آشنا تو کیا ہوگا

ہمارا خون تھا شادابیٔ چمن کا سبب
جو یہ چمن کے نہ کام آ سکا تو کیا ہوگا

غم حیات سے یوں تو ہیں اشک بار آنکھیں
نظر سے خون ٹپکنے لگا تو کیا ہوگا

بیاں کروں تو سہی ان کی داستان ستم
وہ ہو گئے اسے سن کر خفا تو کیا ہوگا

بس اک نگاہ کرم تک ہے زندگی کا نشاط
جو یہ بھی ٹوٹ گیا آسرا تو کیا ہوگا

ابھی ہے مہلت حسن عمل اٹھو ذوقیؔ
جواب دینے لگے دست و پا تو کیا ہوگا