EN हिंदी
وہ نہ آئے گا یہاں وہ نہیں آنے والا | شیح شیری
wo na aaega yahan wo nahin aane wala

غزل

وہ نہ آئے گا یہاں وہ نہیں آنے والا

فاروق بخشی

;

وہ نہ آئے گا یہاں وہ نہیں آنے والا
مجھ کو تنہائی کا احساس دلانے والا

کیا خبر تھی کہ ترس جائے گا تعبیروں کو
اپنی آنکھوں میں ترے خواب سجانے والا

اپنی تدبیر کے انجام سے ناواقف ہے
حال تقدیر کا اوروں کو بتانے والا

میری رگ رگ میں لہو بن کے رواں ہو جیسے
میرے سائے سے بھی دامن کو بچانے والا

کامیابی سے بہرحال خوشی ہوتی ہے
ہنس رہا ہے مجھے دیوانہ بنانے والا

بزم کی اور ہے تنہائی کی دنیا کچھ اور
رات بھر روتا رہا دن میں ہنسانے والا

ہمہ تن گوش بنا دیتا ہے مجھ کو فاروقؔ
اس کی باتوں کا وہ انداز لبھانے والا