EN हिंदी
وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں | شیح شیری
wo muntazir hain hamare to hum kisi ke hain

غزل

وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں

ریحانہ روحی

;

وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں
علامتوں میں یہ آثار خودکشی کے ہیں

پس مراد بہت خواب ہیں نگاہوں میں
سمندروں میں جزیرے یہ روشنی کے ہیں

میں اپنے آپ کو دشمن کے صرف میں دے دوں
یہ مشورے تو مری جان واپسی کے ہیں

ہجوم عکس ہے اور آئینہ صفت ہوں میں
سو میرے جتنے بھی دکھ ہیں وہ آگہی کے ہیں

کسی قبا کو میسر ہے فاخرہ ہونا
کسی لباس میں پیوند مفلسی کے ہیں

میں اس سے دکھ کے بھی اس کو دعائیں دیتی ہوں
عجیب رنگ محبت میں دشمنی کے ہیں

میں جب بھی چاہوں جبھی اس سے گفتگو کر لوں
مری غزل پہ یہ احسان شاعری کے ہیں

جو شہر سنگ میں شیشہ مزاج ہیں روحیؔ
وہ ذمے دار خود اپنی شکستگی کے ہیں