وہ مجھے آسرا تو کیا دے گا
چلتا دیکھے گا تو گرا دے گا
قرض تو تیرا وہ چکا دے گا
لیکن احسان میں دبا دے گا
حوصلہ ہوں گے جب بلند ترے
تب سمندر بھی راستہ دے گا
ایک دن تیرے جسم کی رنگت
وقت ڈھلتا ہوا مٹا دے گا
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا ہے
کھانے کو کیا تجھے خدا دے گا
لاکھ گالی فقیر کو دے لو
اس کے بدلے بھی وہ دعا دے گا
خواب کچھ کر گزرنے کا تیرا
گہری نیندوں سے بھی جگا دے گا
کیا پتہ تھا کہ جلتے گھر کو مرے
میرا اپنا سگا ہوا دے گا
غزل
وہ مجھے آسرا تو کیا دے گا
ابھیشیک کمار امبر