وہ مری راتیں مری آنکھوں میں آ کر لے گئی
یاد تیری چور تھی نیندیں چرا کر لے گئی
زندگی کی ڈائری میں ایک ہی تو گیت تھا
کوئی میٹھی دھن اسے بھی گنگنا کر لے گئی
سردیوں کی گنگنی سی دھوپ کے احساس تک
میرے من کی چاندنی مجھ کو بلا کر لے گئی
ایک خوشبو سا میں اپنی پنکھڑی میں بند تھا
آئی اک پاگل ہوا مجھ کو اڑا کر لے گئی
راہ میں تھک کر جہاں بیٹھی اگر یہ زندگی
موت آئی بانہہ تھامی اور اٹھا کر لے گئی
ورنہ تو بھی راہ میں گرتا چلا جاتا کنورؔ
وہ تو اک ٹھوکر تھی جو تجھ کو بچا کر لے گئی
غزل
وہ مری راتیں مری آنکھوں میں آ کر لے گئی
کنور بے چین

