EN हिंदी
وہ مرے سینہ سے آخر آ لگا | شیح شیری
wo mere sine se aaKHir aa laga

غزل

وہ مرے سینہ سے آخر آ لگا

پرکھر مالوی کانھا

;

وہ مرے سینہ سے آخر آ لگا
مر نہ جاؤں میں کہیں ایسا لگا

ریت ماضی کی مری آنکھوں میں تھی
سبز جنگل بھی مجھے صحرا لگا

کھو رہے ہیں رنگ تیرے ہونٹ کے
ہم نشیں ان پہ مرا بوسہ لگا

لہر اک نکلی مری پہچان کی
ڈوبتے کے ہاتھ میں تنکا لگا

کر رہا تھا وہ مجھے گمراہ کیا
ہر قدم پہ راستہ مڑتا لگا

کچھ نہیں چھوڑو نہیں کچھ بھی نہیں
یہ نئے انداز کا شکوہ لگا

گیند بلے پر کبھی بیٹھی نہیں
ہر دفع مجھ سے فقط کونا لگا

دور جاتے وقت بس اتنا کہا
ساتھ کانہاؔ آپ کا اچھا لگا