وہ مست ناز آتا ہے ذرا ہشیار ہو جانا
یہیں دیکھا گیا ہے بے پیے سرشار ہو جانا
ہمارا شغل ہے راتوں کو رونا یاد دلبر میں
ہماری نیند ہے محو خیال یار ہو جانا
لگاوٹ سے تری کیا دل کھلے معلوم ہے ہم کو
ذرا سی بات میں کھنچ کر ترا تلوار ہو جانا
عبث ہے جستجو بحر محبت کے کنارے کی
بس اس میں ڈوب مرنا ہی ہے اے دل پار ہو جانا
نہیں درکار مے ہم کو پیے جا تو ہی اے ساقی
ہمیں تو مست کرتا ہے ترا سرشار ہو جانا

غزل
وہ مست ناز آتا ہے ذرا ہشیار ہو جانا
خواجہ عزیز الحسن مجذوب