وہ مر گیا صدائے نوحہ گر میں کتنی دیر ہے
کہ سانحہ تو ہو چکا خبر میں کتنی دیر ہے
ہمارے شہر کی روایتوں میں ایک یہ بھی تھا
دعا سے قبل پوچھنا اثر میں کتنی دیر ہے
مقابلہ ہے رقص کا بگولا کب کا آ چکا
مگر پتا نہیں ابھی بھنور میں کتنی دیر ہے
خدائے مہر آسماں اجال دے کہ یوں نہ ہو
دئیے کو پوچھنا پڑے سحر میں کتنی دیر ہے
ہزار کوفہ و حلب گزر رہے ہیں روز و شب
میں جس طرف چلا ہوں اس نگر میں کتنی دیر ہے
خرد کی تیز دھوپ میں جنوں کا سائباں کھلا
میں بیج بو چکا سو اب شجر میں کتنی دیر ہے
ابھی ہمیں گزارنی ہے ایک عمر مختصر
مگر ہماری عمر مختصر میں کتنی دیر ہے
غزل
وہ مر گیا صدائے نوحہ گر میں کتنی دیر ہے
احمد شہریار