وہ محفلیں پرانی افسانہ ہو رہی ہیں
اس بزم میں تو شمعیں پروانہ ہو رہی ہیں
شاید کہ میں بہت جلد اسلام ترک کر دوں
باتیں جو ایک بت سے روزانہ ہو رہی ہیں
ہے حد دل سے آگے رفتار اس کے خوں کی
اور دھڑکنیں بھی خود سے بیگانہ ہو رہی ہیں
میں ہنس رہا ہوں سن کر بارے میں زندگی کے
کیا جسم و جاں میں باتیں بچکانہ ہو رہی ہیں
باغ بدن میں اس کے بے رنگ و بو رہے ہم
اب خواہشیں بطور جرمانہ ہو رہی ہیں
پہلے بھی ہو رہی تھیں پر صرف شاعری میں
آنکھیں تو اب کی سچ مچ مے خانہ ہو رہی ہیں
مٹی کے کان میں یہ کیا کہہ دیا ہوا نے
سب خواہشیں بدن سے بیگانہ ہو رہی ہیں
اک دن جو فرحتؔ احساس اٹھا نماز پڑھنے
دیکھا کہ مسجدیں خود بت خانہ ہو رہی ہیں
غزل
وہ محفلیں پرانی افسانہ ہو رہی ہیں
فرحت احساس