EN हिंदी
وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا | شیح شیری
wo marka ki aaj bhi sar ho nahin saka

غزل

وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا

امیر امام

;

وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا
میں تھک کے مسکرا دیا جب رو نہیں سکا

اس بار یہ ہوا تری یادوں کی بھیڑ میں
ہر گام خود کو مل گیا میں کھو نہیں سکا

جاگا ہوں گہری نیند سے لیکن عجیب بات
یہ لگ رہا ہے جیسے کہ میں سو نہیں سکا

اگ آئی گھاس عشق کے ملبے پہ ہر طرف
ہم دونوں میں سے کوئی اسے دھو نہیں سکا

جادو نگر ہے کوئی مرا اندروں جہاں
ہوتا رہا ہے وہ جو کبھی ہو نہیں سکا