وہ لوگ جن کو حیات اپنی غموں میں ڈوبی ہوئی ملے گی
اگر مرے ساتھ ساتھ آئیں تو اک نئی زندگی ملے گی
انہیں کو ہاں بس انہیں کو اے قیسؔ منزل زندگی ملے گی
مصیبتوں کے ہجوم میں بھی لبوں پہ جن کے ہنسی ملے گی
قفس کی تاریک خلوتوں پر ہیں معترض کیوں یہ اہل دنیا
چمن میں بھی آشیاں جلیں گے تو پھر کہیں روشنی ملے گی
میں تیری آنکھوں کے آسرے پر ہی میکدے سے اٹھا تھا لیکن
یہ کیا خبر تھی کہ تیری آنکھوں سے اور بھی تشنگی ملے گی
اگر اجالوں کی ہے تمنا نہ بجھنے پائے چراغ دل کا
کہ دل میں جب روشنی نہ ہوگی تو ہر طرف تیرگی ملے گی
قسم ہے تم کو مرے مقدر کی یوں سوارو نہ اپنی زلفیں
تمہیں اگر الجھنیں نہ دو گے تو پھر کہاں زندگی ملے گی
یہ لوگ جو خندہ زن ہیں مجھ پر انہیں کچھ اس کی خبر نہیں ہے
کہ میری روداد گمرہی سے زمانے کو رہبری ملے گی
غزل
وہ لوگ جن کو حیات اپنی غموں میں ڈوبی ہوئی ملے گی
قیس رامپوری