EN हिंदी
وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا | شیح شیری
wo lamha mujhko shashdar kar gaya tha

غزل

وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا

عنبر بہرائچی

;

وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا
مرے اندر بھی لاوا بھر گیا تھا

ہے دونوں سمت ویرانی کا عالم
اسی رستے سے وہ لشکر گیا تھا

گزاری تھی بھنور میں اس نے لیکن
وہ مانجھی ساحلوں سے ڈر گیا تھا

قلندر مطمئن تھا جھونپڑے میں
عبث اس کے لیے محضر گیا تھا

نہ جانے کیسی آہٹ تھی فضا میں
وہ دن ڈھلتے ہی اپنے گھر گیا تھا

ابھی تک بام و در ہیں پھول جیسے
مرے گھر بھی وہ خوش منظر گیا تھا

ستارے با ادب ٹھہرے ہوئے تھے
خلا میں ایک خوش پیکر گیا تھا

ادھر آنکھوں میں میری دھول ٹھہری
ادھر شبنم سے منظر بھر گیا تھا

مگر تشنہ لبی ٹھہری مقدر
ندی کے پاس بھی عنبرؔ گیا تھا