EN हिंदी
وہ لمحہ جس سے رنج زندگی نکھرا ہوا سا | شیح شیری
wo lamha jis se rang-e-zindagi nikhra hua sa

غزل

وہ لمحہ جس سے رنج زندگی نکھرا ہوا سا

پون کمار

;

وہ لمحہ جس سے رنج زندگی نکھرا ہوا سا
کبھی ٹھہرا ہوا ہے تو کبھی گزرا ہوا سا

بہا کر لے گیا سیلاب میں جو رات کیا کیا
وہ دریا لگ رہا ہے دن میں کچھ اترا ہوا سا

مری پہچان وہ پوچھے تو کیسے میں بتاؤں
میں اپنے آپ میں سمٹا ہوں پر بکھرا ہوا سا

کہیں بے رنگ سی تصویر ہے کیوں اے مصور
کہیں تصویر کا ہر نقش ہے ابھرا ہوا سا

یقیناً دیر تک تم کو ہی دیکھا ہوگا اس نے
تبھی تو آج درپن بھی ہے کچھ سنورا ہوا سا