وہ لمحہ جس سے رنج زندگی نکھرا ہوا سا
کبھی ٹھہرا ہوا ہے تو کبھی گزرا ہوا سا
بہا کر لے گیا سیلاب میں جو رات کیا کیا
وہ دریا لگ رہا ہے دن میں کچھ اترا ہوا سا
مری پہچان وہ پوچھے تو کیسے میں بتاؤں
میں اپنے آپ میں سمٹا ہوں پر بکھرا ہوا سا
کہیں بے رنگ سی تصویر ہے کیوں اے مصور
کہیں تصویر کا ہر نقش ہے ابھرا ہوا سا
یقیناً دیر تک تم کو ہی دیکھا ہوگا اس نے
تبھی تو آج درپن بھی ہے کچھ سنورا ہوا سا
غزل
وہ لمحہ جس سے رنج زندگی نکھرا ہوا سا
پون کمار