EN हिंदी
وہ کیا ہے ترا جس میں جلوا نہیں ہے | شیح شیری
wo kya hai tera jis mein jalwa nahin hai

غزل

وہ کیا ہے ترا جس میں جلوا نہیں ہے

آسی غازی پوری

;

وہ کیا ہے ترا جس میں جلوا نہیں ہے
نہ دیکھے تجھے کوئی اندھا نہیں ہے

کہاں دامن حسن عاشق سے اٹکا
گل داغ الفت میں کانٹا نہیں ہے

کیا ہے وہاں اس نے پیمان فردا
یہاں ہے وہ شب جس کو فردا نہیں ہے

وہ کہتے ہیں میں زندگانی ہوں تیری
یہ سچ ہے تو ان کا بھروسا نہیں ہے

مری زیست کیوں کر نہ ہو جاودانی
جو مرتا ہے اس پر وہ مرتا نہیں ہے

وہی خاک اڑانا وہی گردشیں ہیں
یہ مانا کہ عاشق بگولا نہیں ہے

گلو گیر ہے ان بھوؤں کا تصور
گریبان میں اپنے کنٹھا نہیں ہے

ان آنکھوں کو جب سے بصارت ملی ہے
سوا تیرے کچھ میں نے دیکھا نہیں ہے

مری حسرتیں اس قدر بھر گئی ہیں
کہ اب تیرے کوچے میں رستا نہیں ہے

وہ دل کیا جو دلبر کی صورت نہ پکڑے
وہ مجنوں نہیں ہے جو لیلیٰ نہیں ہے

کمال ظہور تجلی سے جانا
جو پنہاں نہیں ہے وہ پیدا نہیں ہے