EN हिंदी
وہ کیا گئے پیام سفر دے گئے مجھے | شیح شیری
wo kya gae payam-e-safar de gae mujhe

غزل

وہ کیا گئے پیام سفر دے گئے مجھے

علیم اختر

;

وہ کیا گئے پیام سفر دے گئے مجھے
اک جذبۂ جنون اثر دے گئے مجھے

ہر سمت دیکھتی ہے جو ان کے جمال کو
وہ اک نگاہ جلوہ نگر دے گئے مجھے

ہر چند کرب مرگ ہے محسوس ہر نفس
لطف حیات عشق مگر دے گئے مجھے

تصویر حزن و یاس بنا کر چلے گئے
لب ہائے خشک و دیدۂ تر دے گئے مجھے

بیدار کر گئے سحر و شام زندگی
آہ و فغان شام و سحر دے گئے مجھے

جمتی نہیں نگاہ کسی چیز پر بھی اب
اک خیرگئ تاب نظر دے گئے مجھے

عرض حدیث شوق پہ شرما کے رہ گئے
کتنا حسیں جواب مگر دے گئے مجھے

میرے سکون قلب کو لے کر چلے گئے
اور اضطراب درد جگر دے گئے مجھے

محروم شش جہات نگاہوں کو کر گئے
بس اک نگاہ جانب در دے گئے مجھے

اخترؔ وہ آئے اور چلے بھی گئے مگر
اک لطف اضطراب اثر دے گئے مجھے