وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتا
مرا ہر زخم جوں وہ تیغ ہوتی دور، رو دیتا
عجب ڈھوری لگن میری کی تھی اس شمع سرکش کو
کہ میرا دیکھتا جب عجز وہ مغرور رو دیتا
ہمارے شہر درد آباد میں لوہو کے آنسو سے
وہاں کا دار جب سولی دیا منصور رو دیتا
مثال صبح شبنم ریز جو سورج کا برقعہ ہے
چھڑکتا جب وہ میرے داغ دل پر شور رو دیتا
جو ہوتی وہ پلک نشتر سحاب چشم کی رگ پر
مرے سیلاب اشک آگے ندی کا پور رو دیتا
نہ نکلا گھر سے ورنہ نعش میری خاک راہ اوپر
پڑی گر دیکھتا عزلتؔ وہ رشک حور رو دیتا
غزل
وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتا
ولی عزلت