EN हिंदी
وہ کہ ہر عہد محبت سے مکرتا جائے | شیح شیری
wo ki har ahd-e-mohabbat se mukarta jae

غزل

وہ کہ ہر عہد محبت سے مکرتا جائے

عالم تاب تشنہ

;

وہ کہ ہر عہد محبت سے مکرتا جائے
دل وہ ظالم کہ اسی شخص پہ مرتا جائے

میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خوشبو کی طرح
میں اسے جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے

کھلتے جائیں جو ترے بند قبا زلف کے ساتھ
رنگ پیراہن شب اور نکھرتا جائے

عشق کی نرم نگاہی سے حنا ہوں رخسار
حسن وہ حسن جو دیکھے سے نکھرتا جائے

کیوں نہ ہم اس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ
وہ جو اک دشمن جاں پیار بھی کرتا جائے