EN हिंदी
وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں | شیح شیری
wo KHwab tha bikhar gaya KHayal tha mila nahin

غزل

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں

افتخار امام صدیقی

;

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

ہر ایک دن اداس دن تمام شب اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے کہ جیسے کچھ بچا نہیں

وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لب دعا نہیں

ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں

ہے شور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں
زمیں پہ آدمی نہیں فلک پہ کیا خدا نہیں