وہ خواب خواب فضا وہ نگر کسی کا تھا
مسافرت تو مری تھی سفر کسی کا تھا
نظر گریز رہیں اس طرح مری آنکھیں
کہ جیسے میرا نہیں میرا گھر کسی کا تھا
لہو تو میرا چھپا تھا کلی کی مٹھی میں
کھلے گلاب پہ حق نظر کسی کا تھا
بہت بلند مری پاسباں فصیلیں تھیں
دھڑکتے دل کو مرے پھر بھی ڈر کسی کا تھا
یہ ہاتھ پاؤں مرے تھے زبان میری تھی
جو دے رہا تھا اشارے وہ سر کسی کا تھا

غزل
وہ خواب خواب فضا وہ نگر کسی کا تھا
پرویز بزمی