EN हिंदी
وہ خواب جیسا تھا گویا سراب لگتا تھا | شیح شیری
wo KHwab jaisa tha goya sarab lagta tha

غزل

وہ خواب جیسا تھا گویا سراب لگتا تھا

ابن مفتی

;

وہ خواب جیسا تھا گویا سراب لگتا تھا
حسین ایسا کہ فخر گلاب لگتا تھا

حلیم ایسا کہ دیوانی ایک دنیا تھی
کہ اس سے ہاتھ ملانا ثواب لگتا تھا

نبھانا رشتوں کا نازک کٹھن عمل نکلا
جو دیکھنے میں تو سیدھا حساب لگتا تھا

صراحی دار تھی گردن نشہ بھرے عارض
سراپا اس کا مجسم شراب لگتا تھا

وہ بولتا تو فضا نغمگی میں رچ جاتی
گلے میں ہو کوئی اس کے رباب لگتا تھا

کہانی ایک نئی دیتی ہونٹ کی جنبش
وہ لب جو کھولتا گویا کتاب لگتا تھا

وہ شخص آج گریزاں ہے سائے سے میرے
جسے پسینہ بھی میرا گلاب لگتا تھا

عمل میں فعل میں اس کے تضاد تھا مفتیؔ
اگرچہ دل میں اترتا خطاب لگتا تھا