EN हिंदी
وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا | شیح شیری
wo KHush-KHiram ki burj-e-zawal mein na mila

غزل

وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا

ساقی فاروقی

;

وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا
مجھے سکون ستارے کی چال میں نہ ملا

مجال دے کے مجھے خامشی وبال ہوئی
مرا جواب وداع سوال میں نہ ملا

وہ نا شناس رہا فاخرہ لباسوں میں
اگر ملا تو محبت کی شال میں نہ ملا

نظر ملے تو اسے دیکھ بے یقینی سے
جسے قیام شب احتمال میں نہ ملا

وہ بے حجاب مری یاد سے حجاب کرے
عجیب کیا ہے کہ اب تک خیال میں نہ ملا

مرا مزاج کسی کے مزاج سے نہ ملے
مرا کمال کسی کے کمال میں نہ ملا

سفر میں رکھ مجھے میری جدائیوں سے پرکھ
فراق دے ابھی خاک وصال میں نہ ملا