وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا
مجھے سکون ستارے کی چال میں نہ ملا
مجال دے کے مجھے خامشی وبال ہوئی
مرا جواب وداع سوال میں نہ ملا
وہ نا شناس رہا فاخرہ لباسوں میں
اگر ملا تو محبت کی شال میں نہ ملا
نظر ملے تو اسے دیکھ بے یقینی سے
جسے قیام شب احتمال میں نہ ملا
وہ بے حجاب مری یاد سے حجاب کرے
عجیب کیا ہے کہ اب تک خیال میں نہ ملا
مرا مزاج کسی کے مزاج سے نہ ملے
مرا کمال کسی کے کمال میں نہ ملا
سفر میں رکھ مجھے میری جدائیوں سے پرکھ
فراق دے ابھی خاک وصال میں نہ ملا

غزل
وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا
ساقی فاروقی