وہ خوش ہو کے مجھ سے خفا ہو گیا
مجھے کیا امیدیں تھیں کیا ہو گیا
نوید شفا چارہ سازوں کو دو
مرض اب مرا لا دوا ہو گیا
کسی غیر سے کیا توقع کہ جب
مرا دل ہی دشمن مرا ہو گیا
کہاں سے کہاں لائی قسمت مری
کس آفت میں میں مبتلا ہو گیا
میں یکجا ہی کرتا تھا اپنے حواس
کہ ان سے مرا سامنا ہو گیا
رواںؔ تو کہاں اور کہاں درد عشق
تجھے کیا یہ مرد خدا ہو گیا
غزل
وہ خوش ہو کے مجھ سے خفا ہو گیا
جگت موہن لال رواںؔ