EN हिंदी
وہ کون ہے جو ہلاک نگاہ ناز نہیں | شیح شیری
wo kaun hai jo halak-e-nigah-e-naz nahin

غزل

وہ کون ہے جو ہلاک نگاہ ناز نہیں

نخشب جارچوی

;

وہ کون ہے جو ہلاک نگاہ ناز نہیں
میں کچھ نہیں ہوں اگر چشم امتیاز نہیں

کمال عشق میں بھی لذت مجاز نہیں
تڑپ رہا ہوں مگر دل میں سوز و ساز نہیں

تو کیوں وہ گرمئ محفل وہ دل کشی نہ رہی
نیاز مند اگر جان بزم ناز نہیں

خلش کے ساتھ تڑپ ہے تڑپ کے ساتھ خلش
ہمارے ظاہر و باطن میں امتیاز نہیں

یہ وہ کہے جو ضمیروں کا پڑھنے والا ہے
طلب نہیں ہے جو دست طلب دراز نہیں

ابھی کرم میں یقیناً ستم بھی شامل ہے
کہ دل مآل محبت سے بے نیاز نہیں

پڑا ہے ان سے محبت کا واسطہ نخشبؔ
کہ جن کو عشق و ہوس میں کچھ امتیاز نہیں