وہ کون ہے دنیا میں جو مجبور نہیں ہے
انساں کو کسی بات کا مقدور نہیں ہے
ہر شے پہ ترے حسن کا جادو ہے ازل سے
کیا چیز ترے حسن سے مسحور نہیں ہے
محکوم بنا لیتا بشر ارض و سما کو
لیکن وہ کرے کیا اسے مقدور نہیں ہے
دنیا میں اسے عیش و مسرت نہ ملیں گے
وہ دل جو غم عشق سے رنجور نہیں ہے
مانا کہ حقیقت کو سمجھنا نہیں آساں
انسان حقیقت سے مگر دور نہیں ہے
ہے صاحب ایماں کی کمی اہل جہاں میں
اک راز بھی ورنہ ترا مستور نہیں ہے
اٹھو کہ زمانے کو گناہوں سے بچائیں
جو دن ہے قیامت کا وہ دن دور نہیں ہے
کچھ کیجیے اعمال سنور جائیں جہاں میں
کچھ سوچئے اب وقت قضا دور نہیں ہے
طوفان کی ہر موج ہے اک درس حقیقت
ساحل پہ پہنچنا مجھے منظور نہیں ہے
احساس صداقت جو نہیں اہل طلب میں
چہروں پہ بھی ایمان کا وہ نور نہیں ہے
مانا کہ ہر اک عشرت عالم ہے میسر
انسان مگر آج بھی مسرور نہیں ہے
ہر قوم کا احساس نہیں جس کے عمل میں
دراصل وہ جمہور بھی جمہور نہیں ہے
ہے نازؔ کا ہر شعر خود اک شمع فروزاں
یہ بات الگ ہے کہ وہ مشہور نہیں ہے

غزل
وہ کون ہے دنیا میں جو مجبور نہیں ہے
ناز مرادآبادی