وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
کل اس گلی سے وہی سوگوار گزرا تھا
کوئی چراغ جلا تھا نہ کوئی در وا تھا
سنا ہے رات گئے شہریار گزرا تھا
گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا با وقار گزرا تھا
جو تیرے شہر کو گلگوں بہار بخش گیا
قدم قدم بہ سر نوک خار گزرا تھا
وہ جس کے چہرے پہ لپٹا ہوا تبسم تھا
چھپائے حسرتیں دل میں ہزار گزرا تھا
جسے میں اپنی صدا کا جواب سمجھا تھا
وہ اک فقیر تھا کر کے پکار گزرا تھا
ترے بغیر بڑے بے قرار ہیں آسیؔ
ترا وجود جنہیں ناگوار گزرا تھا

غزل
وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
محمد یعقوب آسی