وہ کبھی شاخ گل تر کی طرح لگتا ہے
اور کبھی دشنہ و خنجر کی طرح لگتا ہے
لے کے آیا ہوں میں کچھ خواب ان آنکھوں کے لیے
آئنہ بھی جنہیں پتھر کی طرح لگتا ہے
حادثے ایسے بھی گزرے کہ تصور جن کا
دل کو چھو جائے تو ٹھوکر کی طرح لگتا ہے
ہلچلیں دائرۂ جاں میں چھپی رہتی ہیں
جس سے ملیے وہ سمندر کی طرح لگتا ہے
کیسا موسم ہے کہ چبھتی ہیں بدن میں کرنیں
سر پہ سورج کسی خنجر کی طرح لگتا ہے
آدمی شدت احساس کا مارا ہو اگر
برگ گل بھی اسے پتھر کی طرح لگتا ہے
دشت بے آب میں جلتے ہوئے ہونٹوں کو بشیرؔ
ایک قطرہ بھی سمندر کی طرح لگتا ہے
غزل
وہ کبھی شاخ گل تر کی طرح لگتا ہے
بشیر فاروق