EN हिंदी
وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجئے | شیح شیری
wo kabhi mil jaen to kya kijiye

غزل

وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجئے

اختر شیرانی

;

وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجئے
رات دن صورت کو دیکھا کیجئے

چاندنی راتوں میں اک اک پھول کو
بے خودی کہتی ہے سجدہ کیجئے

جو تمنا بر نہ آئے عمر بھر
عمر بھر اس کی تمنا کیجئے

عشق کی رنگینیوں میں ڈوب کر
چاندنی راتوں میں رویا کیجئے

پوچھ بیٹھے ہیں ہمارا حال وہ
بے خودی تو ہی بتا کیا کیجئے

ہم ہی اس کے عشق کے قابل نہ تھے
کیوں کسی ظالم کا شکوہ کیجئے

آپ ہی نے درد دل بخشا ہمیں
آپ ہی اس کا مداوا کیجئے

کہتے ہیں اخترؔ وہ سن کر میرے شعر
اس طرح ہم کو نہ رسوا کیجئے