وہ کاش مان لیتا کبھی ہم سفر مجھے
تو راستو کے پیچ کا ہوتا نہ ڈر مجھے
بے شک یہ آئنہ مجھے جی بھر سنوار دے
پر دیکھتی نہیں ہے اب اس کی نظر مجھے
دیوار جو گری ہے تو الزام کس کو دوں
میری خوشی ہی لائی تھی ساجن کے گھر مجھے
مایوسیوں نے شکل کی رنگت بگاڑ دی
پہچانتا نہیں ہے مرا ہی نگر مجھے
آئی تھی اس طرف تو کیوں مجھ سے ملی نہیں
اب کے بہار لگ رہی ہے مختصر مجھے
میں چاندنیؔ ہوں نور ہے مجھ سے جہان میں
دکھلا رہا ہے کون اندھیرے کا ڈر مجھ
غزل
وہ کاش مان لیتا کبھی ہم سفر مجھے (ردیف .. ھ)
چاندنی پانڈے